Search Bar

Sooti Jagti Guriya Ki Khatir Urdu Story | Teen Aurtain Teen Kahaniyan

 


ہم پہلے شہر میں رہتے تھے کیونکہ وہاں ابو کی ملازمت تھی۔ اچانک ابد کا انتقال ہوگیا اور ہم کو مجبور اشہر چھوڑ کر گائوں اپنے دادا جان کے پاس آنا پڑا۔ یہاں کا ماحول شہر کے ماحول سے بالکل مختلف تھا۔ بے شک ہمارے گائوں میں لڑکیاں ہے وہ نہیں کرتی تھیں اور وہ اسکول بھی جاتی تھیں لیکن ویسے پابندیاں بہت تھیں۔ لڑکیاں کھلے عام کہیں بھی جا نہیں سکتی تھیں اور نہ ہی کسی سے بات کر سکتی تھیں۔ ہم شاپنگ کرنے گائوں کے بازار میں بھی نہ جا سکتے تھے کیونکہ ہمیں جس چیز کی ضرورت ہوتی، وہ گھر پر لا کر دے دی جاتی تھی۔ یہاں آکر میں نے یہ سنا کہ ابو میری مشکلی میرے چچا کے لڑکے نورسے لے کر گئے تھے۔نور کو میں نے دیکھا نہ تھا کیونکہ وہ بھی گائوں میں نہ رہتا تھا۔ میرے پہلا شہر میں ریلوے میں ملازم تھے لہذا نور بھی اسی شہر میں رہتا تھا۔ سنا تھا کہ کبھی کبھی چھٹیوں میں گائوں آجاتا تھا۔اس بار چھٹیاں ہوئیں تو وہ گائوں آیا۔ ظاہر ہے کہ اس کے اور میرے دادا کا گھر ایک ہی تھا۔ میں نے پہلی مرتبہ نور کو دیکھا۔ وہ اچھا خو بصورت لڑکا تھا، ہنس مکھ اور شوخ سالہ تاہم جب کسی نے میر ا تعارف اس سے کرایا تو اس نے منہ بسور

لیا گویا مجھے سے ملنا کوئی خوشگوار امر نہ تھا۔ اس کے اس رویے نے میرا دل توڑ دیا۔

میں نے اپنی سخت تو ہین محسوس کی مگر میں یہ نہ سمجھ سکی کہ آخر اس نے ایسا کیوں کیا۔ اس کو مجھ سے کیا شکایت تھی جبکہ میں اس سے پہلی بار مل رہی تھی۔

یہ بعد میں مجھے پھوپھی نے بتایا کہ اصل میں نور کو اس کے والدین نے بتادیا تھا کہ تم اس کی منگیتر ہو اور وہ اسی شوق میں گائوں آیا تھا لیکن جب اس نے تم کو دیکھا تو تم نے اس کو پہلی نظر میں متاثر نہیں کیا، اسی لئے وہ اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کر گیا ہے۔ گھر جا کر بھی اس نے کہہ دیا جو ہو سو ہو، میں نجمہ جیسی معمولی شکل و صورت والی لڑکی سے ہرگز شادی نہ کروں گا۔ شادی کروں گا تو کسی خوبصورت، گوری چٹی شہر والی لڑکی سے جو فیشن بھی کرتی ہو، نجمہ سیدھی سادی نہایت ہی احمق قسم کی لڑکی ہے۔

پھو ہی کے منہ سے اس کے یہ ریمارکس سن کر میرادل بہت برا ہوا۔ میں بھی کوئی نور کے عشق میں مبتلا نہیں تھی لیکن کوئی میری اتنی اہانت کرے اور مجھے کو صرف اس لئے رد کر دے کہ میں سانولی اور سیدھی سادی تھی، تو یہ تو ہین نہیں تو اور کیا تھا ؟ وہ خود کون سا کا نام اور پر کی جہال تھا، بس ذرا شہر میں رہنے کی وجہ سے لباس پہنے کا ڈھنگ تھا اس

کو میں نے دل میں سوچ لیا کہ اگر کبھی نور نے اب میری اہانت کی تو میں نبی اس کو مزہ چکھا دوں گی۔ وقت گزرنے لگا۔ آٹھویں سے نویں پھر میٹرک میں آگئی۔ اس دوران نور ایک آدھ بار ہی گائوں آیا لیکن اس نے مجھے میں کوئی دکھی نہ دکھائی۔ میں نے بھی اس سے بات چیت کو غیر ضروری سمجھا۔ بھلا جب کسی کو میری ضرورت نہ تھی تو میرے لئے وہ کیوں اہم ہوتا۔ میٹرک کے بعد میں گھر بیٹھ گئی۔ ہمارے یہاں لڑکیوں کو اعلیٰ تعلیم دلانے کا تصور نہیں تھا، پھر گائوں میں لڑکیوں کا کالج کہاں تھا جبکہ مجھے تو رہنا ہی گائوں میں تھا۔ مجھے اس بات کا افسوس ضرور تھا کہ اگر میرے ابوبے وقت انتقال نہ کرتے تو میں اس وقت شہر میں ہوتی اور کالج میں پڑھ رہی ہوتی۔ یہ گرمیوں کے دن تھے۔ گرمیوں کی طویل چھٹیوں میں چچا جان کا کنبہ شہر سے گائوں آگیا۔ وہ بھی ساتھ آیا تھا۔ وہ ان دنوں بی ایس سی کے آخری سال میں تھا۔ اب تو بڑا اسمارٹ اور پہلے سے خوبصورت ہو گیا تھا۔ ہر ایک سے جنسی مذاق، سبھی سے بڑی خوش دلی سے ملتا لیکن نہ گردانتا تو مجھے۔ مجھ سے تو بیچ بیچ کے چلتا جیسے میں کوئی چھوت کا مرض تھی۔ مجھے یوں بھی اس کے آنے سے کوئی ایسی مسرت نہ تھی تاہم دل گرفتہ ہی ضرور ہو جاتی تھی کہ آخر مجھے میں کیا

کی ہے جو یہ حضرت مجھ سے اتنی نفرت کرتے ہیں اور کئے کئے رہتے ہیں۔ انہی دنوں پھر میری اور نور کی شادی کی بات چیت چھڑ گئی۔ دادا جان ان دنوں زندہ تھے، یہ منگلی بھی انہی کی خواہش پر ہوئی تھی۔ وہ چچا جان کے سر ہو گئے کہ نجمہ اب شادی کے قابل ہو چکی ہے ،اس کو بہو بنا کر ساتھ لے جائو۔ میرا بڑھایا ہے، زندگی کا کوئی بھروسا نہیں۔ میں اس فرض سے سبکدوش ہو نا چا ہتا ہوں۔ پھو پھی نے مجھے بتایا۔ حسب معمول نور آنا کافی کر رہا تھا۔ وہ کہتا تھا شہر کی خوبصورت لڑکی سے شادی کروں گا اس لئے چیا اور چینی پریشان ہیں جبکہ دادا نے حکم دے دیا ہے کہ شادی اس بار گرمیوں میں ہو جانی چاہیے۔ جب میں نے یہ سنا، غصے سے میرا خون کھول اٹھا۔ جی چاہتا تھا کہ نور کو خوب سنائوں اور خود شادی سے انکار کر دوں۔ بھلا وہ خود کو کیا کچھ رہا تھا۔ کیا و ور نیا بھر میں سب سے زیادہ با لکا سجیلا اور گھبر و جوان تھا ؟ مجھے وہ کون سا بھاتا تھا۔ دل کرتا تھا کہ جا کر دیوا جان سے کہہ دوں کہ میں خود اس احمق اور نا معقول سے شادی نہیں کرنا چاہتی مگر کیا کرتی۔ دادا جان کے سامنے

جانے کی جرات نہ ہوتی تھی، پھر بڑھاپے میں انہیں دُکھ پہنچانے کی مجھ میں ہمت نہ تھی۔ پھر ایک دن پھو پھی سے سنا۔ نور کہتا ہے میں خود اس سلسلے میں نجمہ سے بات کروں گا تا کہ میری جان چھوٹے۔ میں نے دل میں ٹھان لی، ذرا بات تو کرے میں بھی ایسی کھری کھری سنائوں گی کہ عمر بھر یاد کرے گا۔ اس کے بعد تو میں نے نور کی طرف دیکھتا تک چھوڑ دیا۔ وہ سامنے آجاتا تو میں اندر چلی جاتی۔ اگر اس کو میری شکل نہ بھائی تھی تو مجھے کو کب اس کی صورت دیکھنا گوارا تھی۔ یہ اگست کا مہینہ تھا، گرمیاں دم مار چکی تھی، آسمان پر بادل آنا شروع ہو گئے تھے ، کبھی کبھی جھڑی لگ جاتی تھی، میں ہو جاتا تو دم گھٹنے لگتا تھا۔ ایک روز ایسے ہی بادل آسمان پر چھا گئے مگر بارش نہ ہوئی۔ میں ایسا کہ سانس لیناد شوار ہونے لگا۔ میراجی گھر آیا تو میں حمت پر چلی گئی۔ ہماری جہت پر ایک کمرہ بھی بنا ہوا تھا۔ مجھے بتانہ تھا کہ نور کمرے میں بیٹا ہے مگر اس نے مجھے زینے سے آتے دیکھ لیا تھا یا میری آہٹ سن لی تھی۔ اس نے مجھے آواز دی۔ نجمہ میں حیرت سے کمرے کی جانب دیکھنے لگی۔ آواز تو اس کی تھی لیکن وہ اور مجھے آواز دے، جو مجھے سے بات تک کرنی گوارا نہ کرتا تھا۔ مجھے گمان ہوا شاید میرے کان بجنے لگے ہیں۔ اس نے دوبارہ کہا۔ میں ہوں تور تجمد ذرادیر کے لئے اندر آجائو، مجھے تم سے ضروری بات کرتی ہے۔ میں کمرے کے دروازے پر گئی اور کہا۔ کیا بات ہے، کہو اور بولا۔ یہاں نہیں اندر آکر سنو، یہ بات بہت اہم ہے۔ میں نے جواب دیا۔ اور میں اندر نہیں آسکتی، تمہیں جو کہنا ہے ، یہیں سے کہہ دو۔ یہ سن کر وہ اٹھ کر دروازے پر آگیا اور مجھے کو بازو سے پکڑ کر کمرے کے اندر لے جانے لگا۔ اس کی اس حرکت پر مجھے اتنا غصہ آیا کہ جو کچھ شکایت، بیزاری اور نظرت میرے دل میں تھی، وہ یکدم عود کر آئی اور میں نے غیر اختیار ی طور پر ایک زور کا تھپڑ اس کو رسید کردیا۔

شاید اسے مجھ سے ایسی حرکت کی توقع نہ تھی۔ ودیو کھلا کر رہ گیا۔ وہ سوچ بھی نہ سکتا تھا میں اس کے منہ پر طمانچہ کھینچی ماروں گی۔ اس کو تو جیسے دن میں تارے نظر آنے لگے۔ اس سے پہلے کہ وہ کچھ سوچی پاستا، میں تیزی سے دوڑتی ہوئی سیڑھیاں اتر گئی اور اپنے کمرے میں جا کر رونے بیٹھ گئی۔ صبح کو بیچا اور چنگی، دادا جان کے پاس آئے اور کہا کہ نور، مجمہ سے شادی پر رضامند ہو گیا ہے، آپ شادی کی تاریخ ملے کر دیں۔ رات اس نے خود کہہ دیا کہ ہاں میں نجمہ سے شادی کروں گا۔ پھو نھی کو اور مجھے اپنے کانوں پر یقین نہ آیا۔ میں کبھی کہ نور کا دماغ خراب ہو گیا ہے یا پھر وہ اس چھیڑ کا انتظام لینے کے لئے مجھ سے شادی کر رہا ہے جو کل شام میں نے اس کو مارا ہے۔ اب میراجی لرزنے لگا۔ یا السی۔۔ کیا ہو گا؟ نجانے اس تھپڑ کا نور مجھ سے شادی کے بعد کیا بدلہ لے گا۔ غیر ڈرتے ڈرتے وہ دن بھی آگیا۔ میں دلہن بنا کر نور کے حوالے کر دی گئی لیکن اس نے تحقیر کا بدلہ مجھے بہت پیار سے دیا۔ اس نے مجھے بتایا کہ تم نے ناحق مجھے تھپڑ مارا تھا پاگل! میں تو اس دن تمہیں اس لئے بار ہا تھا کہ تم مجھ سے کمیٹی کمپنی رہتی تھیں اور میں شادی کے لئے تمہاری رائے لینا چاہتا تھا ور نہ تو جس قدر میں تم سے محبت کرتا ہوں، دنیا میں کسی نے کسی سے نہ کی ہو گی۔ میں تم کو دیکھنے کے بہانے ڈھونڈا کرتا تھا۔ اپنی منگیتر کو میں چھوڑنے کا تصور بھی نہ کر سکتا تھا۔ تم سے دور دور اس لئے رہتا تھا کہ تم مجھے ایک اچھا لڑ کا سمجھو اور پھو پھی یا گھر والوں کو میرا یہ کہنا کہ نجمہ سے شادی نہیں کروں گا، محض تم کو چھیڑ نے اور ستانے کے لئے تھا، تم نے اس کو سچ سمجھ لیا۔ مجھے نہیں معلوم نور کی کیا نفسیات تھی۔ وہ یہی کہتا ہو گا لیکن میں وہ تھپڑ مار کر آج نور کے سامنے شرمندہ ہوں ۔ وہ اب بھی کبھی کبھی مجھے یاد دلاتے ہیں کہ نجمہ ! تم وہی تھپڑ مارنے والی ہو ؟ تو میں شرم کے مارے نظریں نیچے جھکا لیتی ہوں


Post a Comment

0 Comments