ایک دن مامی آئیں اور بتایا کہ ہماری چچا کی بیٹی اسما کو طلاق ہو گئی ہے یہ سن کر ہم سبھی کو صدمہ ہوا، خاص طور پر بھائیرضوان تو سکتے میں آ گئے۔ اسما کی شادی کو ایک ہفتہ ہی تو گزرا تھا، تبھی ملال کے ساتھ حیرت بھی تھی۔ جس لڑکے سے شادی ہوئی تھی، وہ خوبرو ، خوشحال تھا، گھرانہ بھی شریف تھا، پھر ایسا کیونکر ہو گیا ؟ میں نے کچھ دیر تو ضبط کیا۔ جب دل بہت پریشان ہوا ہمت کر کے والدہ سے پوچھ ہی لیا۔ امی کیا میں مامی کے ہمراہ اسما کے گھر چلی جائوں۔ کوئی ضرورت نہیں، کیا معلوم کرنے جائو گی ؟ جو معاملہ ہو گا ، جلد یا بدیر پتا چل ہی جائے گا ۔ یہ ٹھیک نہیں ہوا۔رضوان بھیا بولے بنا نہ رہ سکے ۔ اچھا ہی ہوا، ہمیں رشتہ نہیں دیا تو خدا نے اس کو بھی اجاڑ دیا۔ بیٹے کے سوال کے جواب میں امی نے ایسا بے تکا اور غلط جواب دیا کہ ہم سب دم بخود رہ گئے۔ اللہ پاک کا کام جوڑے بنانا ہے۔ گھر اجاڑنا تو انسان کے غلط فیصلوں کی وجہ سے ہے بہ سے ہوتا ہے۔ مامی چپ نہ رہ سکیں۔ بھابھی جان ! بڑے بھائی صاحب نے کب انکار کیا تھا۔ آپ ہی نے جہیز کی خاطر بنتی بات کو بگاڑ دیا تھا، ورنہ اسما تورضوان کی بچپن سے منگیتر تھی۔
ہاں امی ! آپ کو کیا پتا، جس بندھن کو لالچ میں آکر آپ نے پل بھر میں توڑ ڈالا تھا، اس کا کتنا دکھ ہم دونوں کو ہوا تھا۔شمس بھائی کے منہ سے یہ بات بے ساختہ ایسے نکل گئی کہ اماں غصے سے سرخ ہو گئیں اور بھیا کو مخاطب کر کہا۔ چپ گستاخ ! شادی شدہ ہو کر اپنی منگیتر کا ماتم لے بیٹھا ہے۔ بیوی تو پہلے ہی روٹھ کر میکے بیٹھی ہوئی ہے، اوپر سے تیری یہ باتیں اس کے کانوں تک پہنچ گئیں تو تیرا گھر بھی اجڑ جائے گا۔ وہ تو اجڑے گا ہی، آپ نے بے گناہ اسما کی بد دعائیں جو سمیٹی ہیں، جہیز کے لالچ میں بڑے گھر کی بہو بیاہ کر لائی تھیں۔ اب کہاں ہے وہ جہیز ؟ سار اسامان اٹھا کر وہ تو پہلے دن الگ ہو گئی ، آپ کو کیا ملا اپنے سے زیادہ حیثیت والوں میں بیٹا بیاہ کے ؟ اماں غصے سے اٹھ کر یہ کہتی ہوئی کمرے کے اندر چلی گئیں کہ رہنے دے، بڑا آیا چچا کی طرف داری کرنے والا۔ میں نے کہہ دیا ہے، خبردار جو ان کے گھر گیا۔ امی کا یہ جملہ ابا جان نے سن لیا جو اسی وقت گھر لوٹے تھے۔ آتے ہی انہوں نے مجھ سے کہا۔ بیٹا تم ضرور چچا ابا کے گھر جائو اور جا کر معلوم کرو کہ کیوں ہماری اسما کے ساتھ ایسا واقعہ ہوا ہے۔ چچا اور تائی کی دلجوئی کرنا، اپنی ماں کی باتوں پر نہ جانا۔ ان بچاروں پر بڑا حادثہ گزرا ہے۔ تمہارے چچا ابو مجھ سے تو خفا ہیں مگر تم سے نہیں، اس لیے تم اور اگررضوان جانا چاہے ، تو اس کو بھی ساتھ لے کر جانا۔ ابا کی ہدایت پر میں مامی کے ہمراہ چچا ابا کے گھر چلی گئی مگر والدہ نےرضوان بھائی کو نہ جانے دیا۔ انہوں نے کہا بھی، کہ امی جو ہونا تھا ہو گیا۔ چچا ہمارے دشمن تو نہیں، جو ہم ان کی غم گساری نہ کریں۔
ابا بولے۔ بیٹا، ماں کی باتوں پر نہ جائو، ان بے چاروں پر بڑا سانحہ ہوا ہے۔ جی ابا جان، کسی وقت میں بھی جائوں گا لیکن امید ہے کہ چچا ابو اب آپ سے خفا نہیں ہوں گے۔چچا کے گھر میں قدم رکھتے ہی مجھ کو احساس ہو گیا کہ فضا سوگوار ہے اور کوئی ایسا واقعہ ہو چکا ہے جس نے اس مکان کے ہر مکین کے دل پر چپ کی مہریں ثبت کر دی ہیں۔ میں سیدھی تائی امی کے پاس چلی گئی۔ انہوں نے شفقت سے میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور کہا۔ بیٹھو بیٹی، اتنے دنوں کے بعد کیسے آنا ہوا ؟ تب میں نے ڈرتے ڈرتے ان سے پوچھا۔ کیا یہ سچ ہے کہ انہوں نے اسما کو میری بات پوری ہونے سے پہلے ہی اسما سامنے آگئی اور بولی۔ آپی ! مجھ سے سے پوچھئے کہ کیا ہوا ہے، پھر وہ بتانے لگی۔ میں جس راستے سے کالج جایا کرتی تھی، وہاں ایک لڑکا موٹر بائیک پر ہر روز ہمارے پیچھے آیا کرتا تھا۔ خالدہ، میری دوست کا گھر راستے میں پڑتا تھا، تبھی ہم دونوں اکٹھی کالج سے نکلتی تھیں۔ ہمیں بہت غصہ آتا تھا جب ہم اس لڑکے کو اپنے پیچھے آتے دیکھتی تھیں۔ میں برقعہ اوڑھتی تھی، جب کہ خالدہ بغیر برقعہ ہوتی تھی۔ اس لڑکے کا نام ہمیں معلوم نہیں تھا۔ خالدہ نے اس کا لقب آوارہ گرد رکھ دیا تھا۔ جب وہ پلٹ کر دیکھتی تو کہتی۔ اسما تیز چلو ، وہ کم بخت پھر آرہا ہے۔ وہ آوارہ دراصل خالدہ کے پیچھے آتا تھا۔ کیونکہ اس کی توجہ میری سہیلی ہی کی طرف رہتی تھی۔ وہ اسی پر زیادہ تر فقرے کرتا تھا۔ اگر وہ کالی چادر اوڑھے ہوتی تو کہتا، کالے بادلوں میں چاند چھپا ہوا ہے۔ اگر اس کے کپڑے سفید ہوتے تو کہتا۔ حوروں کا لباس پہنا ہوا ہے ، کہیں تم حور تو نہیں ہو ؟ غرض وہ ہر طرح سے ہمیں زچ کرنے کی کوشش کرتا۔وہ اچھے کردار کا نہیں تھا کیونکہ بہت واہیات گانے اپنی پاکٹ ٹیپ ریکارڈ میں لگائے رکھتا تھا مگر ہم اس طرح ظاہر کر تیں، جیسے ہم اس کا کوئی نوٹس نہیں لیتی ہیں۔ ایک دن اس نے حد کر دی۔ موٹر سائیکل خالدہ کے قریب روک کر اس کو لفٹ کر پیش کش کی اور جب وہ پیچھے ہٹی تو اس کے بہت قریب موٹر سائیکل لانے لگا۔ وہ گھبرا گئی اور اس کے ہاتھ سے کتابیں گر گئیں۔
وہ دوڑ کر میرے پیچھے چھپ گئی۔ مجھے اتنا غصہ آیا کہ میں نے کھینچ کر چپل اس آوارہ کے سر پر جڑ دی۔ اس سے پہلے کہ وہ کوئی کارروائی کرتا، ادھر ادھر سے لوگ جمع ہونے لگے۔ اپنی پٹائی کے ڈر سے وہ بھاگ کھڑا ہوا، مگر جاتے جاتے اس نے جھپٹ کر میرا پرس چھین لیا اور یہ جا وہ جا۔ مجھے پرس کا کوئی دکھ نہیں تھا، کیونکہ اس میں کچھ بھی نہیں تھا۔ طالب علمی کے زمانے میں پرس میں دو چار روپے ہی ہوتے ہیں یا پینسل وغیرہ، البتہ اس میں میر اشناختی کارڈ تھا، جس پر میرا نام اور گھر کا پتا لکھا ہوا تھا۔ بس اسی کا مجھ کو دھڑ کا تھا۔ اس حادثے کے بعد وہ دوبارہ ہمیں دکھائی نہیں دیا تو ہم نے سمجھ لیا کہ وہ ڈر گیا ہے اب ہم کو تنگ کرنے نہ آئے گا۔ فائنل ایئر کے پیپر ختم ہوئے تو میں گھر بیٹھ گئی۔ ان دنوں یوں بھیرضوان سے رشتہ ٹوٹ جانے پر مغموم رہنے لگی تھی اور خود سے لا تعلق سی ہو گئی تھی۔ رشتے آتے تھے مگر میں ان میں دلچسپی نہ لیتی تھی۔ اماں کچھ بتانے کی کوشش کرتیں تو چڑ کر کہہ دیتی کہ جہاں مرضی بیاہ دیں، مجھ سے کیوں پوچھتی ہیں؟ ان ہی دنوں میرے لئے ایک رشتہ آیا سنا کہ بڑے امیر لوگ ہیں، لڑکا بھی تعلیم یافتہ ہے۔ اماں نے ہاں کر دی۔ انہوں نے جلد شادی کی تاریخ مانگ لی۔ ابا نے بہت روکا کہ غیر لوگ ہیں، جلد شادی غلط ہوتی ہے مگر والدہ مجبور تھیں کیونکہ یہ لوگ جہیز نہیں لے رہے تھے۔
صرف لڑکی کو بہو کے طور پر رخصت کر کے گھر لے جانا چاہ رہے تھے اور ابھی تو آپا بھی بیٹھی تھیں۔ ان کا رشتہ نہیں ہو رہا تھا۔ امی نے سوچا ایک بیٹی کا فرض ادا ہو رہا ہے اور اچھے خوش حال گھرانہ ہے، امیر لوگ ہیں۔ ان کے توسط سے بڑی لڑکی کا رشتہ بھی کسی اچھے گھر میں ہو جائے گا۔ ایک دن میں نے آپا سے پوچھا بھی تھا کہ آپ نے لڑکا دیکھا ! کیسا ہے ؟ وہ بولیں۔ بہت اچھا، دراز قد اور خوبصورت شکل صورت کا ہے۔ کہو تو تصویر منگوا دوں ، مگر میں نے منع کر دیا کہ جب نصیب میں یہی ہے تو اب تصویر کا کیا دیکھنا، پہلی منگنی تو راس نہ آئی۔ اب جس سے بھی شادی ہو جائے کیا فرق پڑتا ہے۔ جب اماں ابا، بہنوں، سبھی نے دیکھ لیا تو میں نے کیا دیکھنا۔ لڑکے نے بھی تو مجھ کو دیکھنے کی بات نہ کی تھی، اپنے گھر والوں کی پسند پر بھروسہ کر لیا تھا۔ جب چچی نے منگنی بر قرار نہ رکھی تو میرے والدین نے کہیں تو میری شادی کرنی تھی۔ شادی کے دن میں بے حس بیٹھی تھی۔ دل کہیں تھا، دماغ کہیں۔ جب وہ کمرے میں آیا اور اس نے میرا گھونگھٹ اٹھایا تو میں چونک پڑی۔ مجھے اپنی آنکھوں پر یقین نہ آرہا تھا۔ یہ تو وہی آوارہ تھا۔اس نے آتے ہی کہا۔ محترمہ تمہاری چپل کھانے کے بعد قسم کھائی تھی کہ اس احسان کا بدلہ ضرور دوں گا، جو چپل کی مار سے مجھ پر قرض ہو گیا تھا۔ اس قرض کو اتارنے کے لئے تمہاری کھوج لگائی اور رشتہ بھیجا۔ یہ خوش قسمتی کہ رشتہ قبول ہوا اور مجھ کو آج آپ کا وہ احسان اتارنے کا موقع مل گیا ہے۔ سہاگ رات تو خیر میں تمہاری خراب نہ کروں گا، البتہ اگلے دن سوچوں گا کہ جو عورت بھرے بازار میں مجھے چپل مار سکتی ہے ، اس کے ساتھ آگے زندگی گزارنی چاہیے یا نہیں؟ یہ تھا میرا جرم اسما نے دوپٹے کے پلو سے اپنے آنسوئوں کو جذب کیا۔ مجھے بہت دکھ ہوا۔
میں نے اسے گلے لگایا اور بولی۔ کاش اسما میں تمہارا دکھ دور کر سکتی لیکن یہ میرے بس میں نہیں ہے۔ بھائیرضوان بھی تمہاری طلاق کا سن کر بہت افسردہ ہیں۔ وہ کسی دن ابا جان کے ساتھ چچا ابو اور تائی جی کے پاس آئیں گے۔ گھر جا کر میں نے والدین کو تمام صورت حال بتائی۔ والدہ تو خاموش رہیں لیکن اباجان کی آنکھوں میں نمی تیر گئی۔ اسما کوئی غیر نہ تھی ان کے سگے بھائی کی بیٹی تھی، جس کو وہ اپنی اولاد کی طرح چاہتے تھے۔ ان کو بہت دکھ تھا۔ اگر امی اپنی چالبازی سے اس رشتے کو ختم نہ کرتیں تو آج ہمیں اسما کی طلاق کا صدمہ نہ سہنا پڑتا۔ اس واقعے کے بعد میں نے نوٹ کیا کہ بھائی جان بجھے بجھے اور گم صم رہنے لگے ہیں۔ منگنی ٹوٹنے اور اسما سے شادی نہ ہونے کا دکھ تو انہوں نے کسی طور جھیل لیا تھا لیکن اب طلاق کا افسوس ان کو اندر اندر کھائے جارہا تھا۔ سچ ہے جو ساتھی پیارا ہو ، خواہ اسے انسان حاصل کر سکے، یا نہیں، لیکن دل میں سچا پیار ہو تو اپنے محبوب کی جدائی سے زیادہ اس بات سے اضطراب رہتا ہے کہ میرا محبوب اجڑ گیا ہے ، پھر اسے اپنی خوشی بھی خوشی نہیں لگتی ۔ بھائی کو بھا بھی کے روٹھ جانے کا دکھ تھا۔ ہم بھی چاہتے تھے کہ جبرضوان بھیا کی شادی ہو چکی ہے اور گھر آباد ہو گیا ہے تو آباد ہی رہنا چا ہے۔ اب اس گھر کو اجڑ نا نہ چاہیے۔ ہم نے کبھی یہ نہیں سوچا کہ اگر ہماری بھا بھی ہمارے ساتھ گھل مل کر نہیں رہتیں اور ہمیں اہمیت نہیں دیتیں تو نہ سہی، یہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ ہنسی خوشی زندگی بسر کریں ، یہی ہمارے لئے بہت ہے۔ امی اور ابا جان نے کافی کوشش کی۔ کئی بار بہو کو منانے بھی گئے۔ ان کے والدین نے کہا۔ ہم تو آپ سے ناراض نہیں اور نہ آپ سے کوئی گلہ ہے۔ ہماری بیٹی کو راضی کر لیں ، ان کو کچھ گلے شکوے ہیں۔ امی نے کہا۔ آپ کی بیٹی نے گھر کا مطالبہ کر دیا تھا۔ ہم نے کہا کہ ہم ہم کرایے کے گھر میں چلے جاتے ہیں۔ ہماری بہو علیحدہ رہنا چاہتی ہے ، بے شک رہے۔ تب بھی بہونے اعتراض کیا آپ لوگوں کا گھر میرے رہنے کے لائق نہیں۔ میں ایک عالیشان بنگلے سے آئی ہوں۔ تنگ گھر اور اتنے سارے لوگوں میں نہیں رہ سکتی۔ میرے بیٹے نے یہ فرمائش بھی پوری کر دی۔ اب بھی آپ کی صاحبزادی خوش نہیں ہیں، تو بتائیے کیا کریں۔ بھا بھی بولی۔ مجھے آپ کے بیٹے سے شکایت ہے کہ وہ مجھے وہ سہولیات فراہم نہ نہیں کرتے جن کی میں عادی ہوں۔ بیوی کو ہر طرح کا آرام پہنچانا تو شوہر کا فرض ہے۔ بیٹی نتاشا ! جتنی اس کی تنخواہ ہے ، وہ اسی قدر آپ کو آرام پہنچا سکتا ہے۔
بنگلے میں رہنے کا کرایہ بھی وہ کس طرح ادا کرتا ہے، تبھی دوسری فرمائشیں پوری نہیں ہو پاتیں۔ میری کوئی بہت بڑی فرمائشیں نہیں ہیں آنٹی ! میں ہر ماہ زیوارت کے سیٹ خریدنے کی تو ان سے فرمائش نہیں کرتی۔ ہر ماہ، چند اچھے نئے برینڈ کے جوتے ، جوڑے پرس وغیرہ تو ہر بیوی ہی لیتی ہے۔ میں جس سوسائٹی ہیں رہتی ہوں، اگر ان کی طرح بن ٹھن کر نہ جائوں گی تو میری عزت خاک رہ جائے گی۔ اگررضوان میری یہ ساری جائز خواہشات پوری نہیں کر سکتے تھے ، تو کیوں کی تھی اپنے سے بڑے گھرانے میں شادی ؟ اپنے جیسے لوگوں میں شادی کرنا چاہیے تھی۔اس کی مجرم میں ہوں بیٹی۔ میں نے اس کے لئے دلہن ڈھونڈی اور آپ لوگوں سے رشتہ ناتا جوڑا۔ آپ اچھے اخلاق والے، تعلیم یافتہ لوگ تھے۔ خبر نہ تھی کہ آپ ہم کو حقیر سمجھیں گے۔ تب تو آپ کے والدین نے میرے بیٹے کا رشتہ پسند کر لیا اور ہاں کہہ دی تھی کہ وہ آفیسر ہے ، انجینئر ہے ، اس کا مستقبل روشن ہے۔ اب کیوں ہم آپ کے معیار کے نہیں رہے ہیں ؟ انسان محنت کرتا ہے تو رفتہ فتہ ترقی کر کے مستقبل بنا لیتا ہے۔ اس میں تھوڑا سا وقت تو لگتا ہے۔ یہ رفتہ رفتہ “ والا معاملہ آپ رہنے دیں۔ جب اچھا کھانے پینے سجنے سنورنے ، سیر و تفریح سے لطف اندوز ہونے کی عمر ہو تو انسان کے پہلے کچھ نہ ہو اور جب تک مستقبل شاندار ہو گا ، تب تک خواہش ختم ہو جائیں گی ، آرزوؤیں مر جائیں گی ، ہم ادھیڑ عمر ہو جائیں گے تو زندگی کا کیا لطف باقی رہ جاتا ہے۔ مجھے نہیں چاہیے یہ کچھوے کی چال جیسا شاندار مستقبل، مجھے بس طلاق چاہیے۔ نتاشا بھا بھی کے اس مطالبے پر سبھی انگشت بہ دنداں رہ گئے۔ امی کی لالچ کا جواب بہو کی طرف سے بھی لالچ سے ملا، گویا جیسا بویا ویسا کاٹا۔ نتاشا کو اس کے ماں باپ نے بھی سمجھایا کیونکہرضوان بھائی کو وہ اچھا جانتے تھے اور ہم ایسے بھی گئے گزرے لوگ نہ تھے۔ خوشحال تھے ، مکان اپنا تھا، کچھ زرعی زمین تھی۔ میرے بھائی تعلیم یافتہ اور برسر روزگار تھے۔ آفیسر تھے مگر چھوٹے آفیسر تھے کیونکہ ابھی انہوں نے اپنے کیریئر کی ابتداہی کی تھی۔بہر حال جب بات نہ بنی تو میرے والدین اپنا سا منہ لے کر آ گئے۔ انہوں نےرضوان کو بتا دیا کہ بہو کے والدین تو ٹھیک سوچ رکھتے ہیں مگر نتاشا کی سوچ نئے زمانے کی ہے۔ وہ کوئی بات سننا اور سمجھنا نہیں چاہتی۔ اپنی خواہشات پل بھر میں پورا کر لینا چاہتی ہے۔ وہ چاہتی ہے کہ تم یہ مکان اور زرعی اراضی کو فروخت کر کے اس کے لئے شاندار گاڑی اور نیا گھر خرید کر اس کے نام کر دو، تب ہی صلح ہو سکتی ہے۔ اگر تم کو یہ منظور ہے تو ٹھیک ہے ، ہم سڑک پر آجائیں گے تو بھی کوئی بات نہیں۔ تم بیوی کے خواب پورے کر کے اپنا گھر آباد کر لو۔ نہیں ابو یہ مجھ سے نہیں ہو سکے گا۔ ماں باپ کو کرایے کے گھر میں رکھوں اور ان کے بڑھاپے کا ٹھکانہ ، ان کے سر کی چھت سے ان کو محروم کر دوں۔ یہ گھر میں نے تو نہیں بنایا۔ آپ نے اپنی محنت سے بنایا تھا، کیا اس لئے کہ آپ بہو کی خوشنودی کی خاطر بڑھاپے میں سڑک پر آجائیں ؟ ایسا نہیں ہو گا۔ مجھے نتاشا کی یہ شرطیں منظور نہیں ہیں۔ اگر میں آج اس کے یہ خواب پورے کر دوں گا تو کل وہ اور خواہشیں پوری کرنے کا تقاضہ کرے گی کیونکہ ایسے لوگوں کی خواہشوں کا کوئی کنارا نہیں ہوتا۔ ان لوگوں کے ساتھ عمر بھر رہنا اور ان کو خوش کرنا آسان نہیں ہوتا۔ اب تو ہماری اماں بھی سکتے میں تھیں کہ انجانے میں کیسا غلط فیصلہ کر بیٹھی تھیں۔ پس اس طرح نہ چاہتے ہوئے بھی بھائی جان نے نتاشا کو طلاق دے دی۔وہ جو کہتے ہیں کہ اللہ تعالی جوڑے آسمان پر بناتا ہے ، وہ بات صحیح ہے۔ اللہ تعالی کی طرف سے بھائی اور اسما کا جوڑا بنا ہو گا مگر انسان کی اپنی نادانیاں، جہیز کے لالچ نے میری اماں سے غلط فیصلہ کروا دیا۔ لڑکی والوں نے سوچا کہ لڑکا انجینئر ہے اور آفیسر ہے، یہ نہ سوچا کہ ہماری لڑکی کسی اور طرح کے طرز زندگی کی عادی ہے ، ان لوگوں کے طرز زندگی میں نہ مل سکے گی۔
ماں باپ
کو یہ بھی سوچنا چاہئے کہ لڑکی جس گھر جائے اس گھر کا ماحول ان کے جیسا ہو اور حیثیت
میں برابری لازم ہے تا کہ اونچ پیچ ، برتری کم تری کا تصور ان کی ازدواجی زندگی میں
حائل نہ ہو۔ جو ہونا تھا سو ہو کر رہا۔ اس کے بعد والد صاحب تا یا ابو کے گھر گئے ،
بڑے بھائی سے معافی مانگی اور ایک بار پھر ہماری اماں نے تائی کے آگے جھولی پھیلا
کر اسما کارشتہ ،رضوان بھائی کے لئے مانگا۔ اماں کو سبق تو مل گیا تھا، لہٰذا اب بیٹے
کی خوشی کو مد نظر رکھ کر انہوں نے بھی منت و سماجت سے کام لیا۔ سبھی جاتنے تھے کہ
اسما سے اچھی لڑکی ہمیں نہیں مل سکتی۔ ہماری بھا بھی بننا اسما کے مقدر میں تھا، لہٰذا
وہ دلہن بن کر آ گئیں لیکن مطلقہ ہونے کے بعد ۔ ہم سب پھر بھی خوش تھے کہ ہمارے گھر
کی خوشیاں لوٹ آئی تھیں اور ہمارے گھر کو ہیرے جیسی اچھی بہو بھی مل گئی تھی۔ اسما
میں ایسی خوبیاں ہیں کہ خدا ایسی بھا بھی ہر کسی کو دے۔
0 Comments