Search Bar

" />

Izaat bibi Ki Bay Qarari | teen Oratien Teen Khaniyan



یہ آج سے چالیس برس قبل کا واقعہ ہے۔ ان دنوں جاگیر دار گھرانوں میں یہ رواج تھا کہ بچوں کو ان کی مائیں نہیں بلکہ باندیاں پالتی تھیں۔ میری تو ماں بھی اس جہاں سے سدھار گئی تھی۔ جب میں ابھی سال بھر کی تھی کہ امی بابا، ایک ہوائی جہاز کے حادثے میں اللہ کو پیارے ہو گئے۔ ہمارا اور چچا کا گھر ایک تھا۔ بابا اور چچا کوئی معمولی لوگ نہ تھے یہ بہت امیر کبیر اور اپنے علاقے کے جاگیر دار تھے۔ مجھے دائی بخت بی بی کی گود میں دے دیا گیا، جس نے مجھے ماں کا پیار دیا۔ میں انہی کو شروع میں اپنی ماں سمجھتی تھی۔ ان کا گھرانہ صدیوں سے ہمارے چچا کے پاس خدمت گزار تھا۔ ان کو چچا کی حویلی کے اندر ہی ایک سرونٹ کوارٹر ملا ہوا تھا، جس میں ان کا سارا کنبہ رہتا تھا اور یہ سب ہی ہمارے چچا کی حویلی میں ہر طرح کی خدمتیں بجا لاتے تھے۔ امال بختو کی ایک بیٹی تھی، جس کا نام عزت بی بی تھا۔ عزت جب اس دنیا میں آئی تو بد نصیبی بھی ساتھ لائی کیونکہ وہ ایک باندی کی اولاد تھی، اس لئے پیدا ہوتے ہی غلامی کا طوق خود بخود اس کے گلے کی زینت بن گیا۔ بڑی ہو کر اسے بھی حویلی کے مکینوں کی جی حضوری اور خدمت گزاری کرنا تھی۔ اس کی اپنی کوئی زندگی نہ تھی۔ یہی وجہ تھی کہ جب وہ پیدا ہوئی ماں باپ بھی روئے۔ جن دنوں عزت پیدا ہوئی، میں ڈیڑھ برس کی تھی اور اس معصوم کی ماں کی گود میں پروان چڑھی تھی۔ میں تو اس کے پیدا ہونے پر بہت خوش تھی۔ یہ ننھی منی گڑیا مجھے اپنی جانب کھینچتی تھی مگر اس کے ماں باپ اس کی پیدائش پر خوش نہیں تھے۔ بہر حال ایک ہی عورت کی شفقت کے زیر سایہ ہم دونوں پلتی رہیں لیکن مجھے اماں بخت کا پیار اور عزت کو جھڑکیاں ملتی تھیں حالانکہ وہ خوبصورت تھی لیکن اس کا حسن بھی کسی کا دل موم نہیں کرتا تھا۔جب اس نے ہوش سنبھالا تو سب سے زیادہ مجھ سے مانوس تھی  ہم میں پیار بھی بہنوں جیسا تھا اور ہم سہیلیاں بھی تھیں۔ ہوش سنبھالنے کے بعد گرچہ میں زیادہ تر حویلی میں اپنے کمرے میں رہتی تھی لیکن عزت میری خاطر میرے پاس ہی رہتی۔ میں اس کو پیار سے عز تو، بلاتی تھی۔ اس کے بغیر میرا جی گھبراتا تھا۔ وہ بھی میرے پاس رہنے سے خوش رہتی تھی۔ اپنے گھر والوں کے ساتھ کوارٹر میں اس کا جی نہیں لگتا تھا کیونکہ سب اس سے اہانت آمیز سلوک کرتے تھے۔ عزت میرا تمام کام اپنے ہاتھوں سے کرتی، میں اسکول جاتی تو وہ میرا انتظار کرتی رہتی، پھر میں کالج جانے لگی۔ وہ میری کتا بیں ترتیب سے لگاتی، میرے کپڑے استری کرتی، میرے کمرے کی صفائی کرتی اور بہت پیار سے ناشتے اور چائے کی ٹرے کمرے میں لا کر رکھتی تھی۔

میں یہ بات سمجھنے سے قاصر تھی کہ دائی بختو جو مجھ سے اتنا پیار کرتی ہے، اپنی سگی بیٹی سے کیوں برا سلوک کرتی ہے ؟ اس کے ساتھ کبھی پیار سے بات نہیں کرتی۔ لگتا تھا جیسے وہ اس کی سوتیلی ماں ہو۔ وہ چودہ پندرہ برس میں بھی اپنی ماں اور باپ سے پیٹتی تو مجھے حیرت ہوتی، حالانکہ بیٹی جوان ہو جائے تو ماں باپ اس کو نہیں مارتے۔ نہ جانے یہ کیسے ماں باپ تھے جو اپنی بچی سے ایسا سلوک کرتے تھے۔ میں عزت بی بی کا دکھ سمجھتی اور محسوس بھی کرتی تھی، اس لئے اس کو زیادہ وقت اپنے ساتھ رکھتی تھی ، تا کہ وہ دائی بختو کے گھر کی طرف جائے اور نہ اس کی بے عزتی ہو۔ ان دنوں وہ بڑی خوبصورت ہو گئی تھی۔ ایسا رنگ و روپ نکالا تھا کہ اس پر شہزادیوں کا سا گمان ہوتا تھا۔ وہ میرے علاوہ حویلی کے اور مکینوں کے کام بھی کرتی تھی۔ ہر کسی کا حکم بجالاتی۔ چچی نے اس کے ذمے کچھ کمروں کی صفائی کا کام بھی لگا دیا تھا۔ میرا منجھلا چچازاد خیر قاسم ان دنوں کالج کا طالب علم تھا۔ وہ ایک منچلا اور شوخ لڑکا تھا۔ کبھی کبھی میرے کمرے میں آجاتا اور خوب ہنسی مذاق کرتا۔ اگر عزت موجود ہوتی تو وہ اس کو بھی تنگ کرتا مگر صرف میرے سامنے ، باقی گھر والوں کے روبرو تو وہ عزت کو صرف حکم ہی دیتا تھا اور اس کے ۔ ساتھ غیر ضروری بات بالکل بھی نہیں کرتا تھا۔ کچھ دنوں سے ایسا ہونے گا کہ عزت جب خیر قاسم کا کمرہ صاف کرنے جاتی تو کافی دیر لگا دیتی۔ شروع میں، میں نے دھیان نہ دیا۔ بعد میں اس کی یہ بات مجھے کھلنے لگی۔ میں نے استفسار کیا تو عزت نے مجھ پر کچھ رازوں کا انکشاف کیا اور کہا خدا کے لئے آپی، کسی کو مت بتانا ور نہ میری شامت آ جائے گی۔ وہ باتیں ایسی ہیں جو میں یہاں نہیں لکھ پاؤں گی۔ عزت نے کہا تھا کہ مجھے خیر قاسم سے پیار ہو گیا ہے۔ مجھے پتا ہے کہ میں باندی ہوں اور وہ مالک ہیں مگر میں مجبور ، بے بس ہوں ، دل کے ہاتھوں مجبور ، کچھ نہیں کر سکتی۔ آپ بتاؤ آپی، میں کیا کروں ؟ میں دیکھ رہی تھی عزت اپنی اوقات بھول کر دن رات خیر قاسم کے خیالوں میں مگن رہنے لگی ہے۔ میرا یہ کزن بہت حسین و جوان تھا۔

 امیر ماں باپ کا لخت جگر ، اس کا تورہن سہن بھی شہزادوں جیسا تھا اور وہ شہزادہ ہی لگتا تھا، لیکن بد نصیب عزتو کی شامت جہاں وہ اپنی محبت کی کامیابی کا تصور تک نہیں کر سکتی تھی۔ ہم دن کو رات مان سکتے تھے، لیکن خیر قاسم اس کو کبھی بھی نہیں مل سکتا تھا۔ عزت نے اپنی محبت کا حال میرے سوا کسی کو نہیں بتایا تھا۔ وہ خیر قاسم سے اتنا پیار کرتی تھی کہ پانچ وقت نماز پڑھ کر اس سے شادی کی دعائیں مانگتی  تھی، مگر خیر قاسم اس بارے میں سنجیدہ نہ تھا، وہ صرف شغل کر رہا تھا۔ میں یہ خوب جانتی تھی۔ جب وہ امریکہ وغیرہ جاتا تو لوٹتا، سب کے لئے تحفے لاتا تو ایک دو چیزیں عزت کا دل خوش کرنے کو اسے دے دیا کرتا تھا۔ اس پر وہ پھولی نہیں سماتی تھی حالانکہ میں جانتی تھی کہ وہ کبھی اس باؤلی لڑکی کے ساتھ شادی کرنے والا نہیں، پھر بھی عزت کا دل رکھنے کو یہی کہتی کہ تسلی رکھو، میں تمہاری خیر قاسم بھائی کے ساتھ شادی کروانے کی کوشش کروں گی۔ تب وہ اس قدر خوش ہو جاتی جیسے اسے میری بات کا یقین ہو۔ ان دنوں جب خیر قاسم اعلیٰ تعلیم کے لئے امریکہ جا رہا تھا، عزت کی بے قراری دیکھی نہ جاتی تھی۔ وہ بہانے بہانے سے میرے کمرے میں آتی اور آنسو پونچھ کر چلی جاتی۔ ایک دو بار تو میرا بھی جی چاہا کہ خیر قاسم کو پکڑ لاؤں اور عزت کو اس کے ساتھ بٹھادوں۔ عز تو کہتی ۔ آپی جانے یہ امیر لوگ کیسے ہوتے ہیں ؟ تنہائی میں تو ہم غریبوں سے پیار جتلاتے ہیں مگر سب کے سامنے انہیں اپنی امیری کا خیال آجاتا ہے اور یہ کتنے بدل جاتے ہیں۔ غریب لڑکیوں کی ایسی دعائیں کم ہی قبول ہوتی ہیں کہ وہ کسی امیر زادے کی دلہن بن جائیں۔ وہ خاموشی کے ساتھ خود کو تباہ کر رہی تھی۔ اس محبت کی خاطر اس نے بڑی منتیں مانی ہوئی تھیں، لیکن میں جانتی تھی کہ اس کا کچھ نہیں بنے گا۔ امریکہ میں تین سال لگا کر خیر قاسم لوٹ رہا تھا اور میرے چچا بہت خوش تھے کیونکہ اب وہ اپنے بیٹے کی شادی کا ارادہ کر چکے تھے۔ ادھر عزت کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا کہ وہ تین برس بعد خیر قاسم کو دیکھنے والی تھی، مگر اس کی یہ خوشی دو دن ہی رہی کیونکہ خیر قاسم کے آنے کے دوسرے ہی دن چچانے اس کی منگنی کا اعلان کر دیا۔ یہ اعلان ہمارے لئے تو غیر متوقع نہیں تھا کہ میرے کزن کی شادی تا یا کی بیٹی شہر بانو سے ہو رہی تھی۔ ظاہر ہے کہ جاگیر دار کے بیٹے کی شادی جاگیر دار کی بیٹی سے ہی ہونی تھی، تاہم عزت کو اس خبر سے دھچکا لگا۔ میں اس کی معصومیت سے شاکی نہ تھی، چاہتی تھی کہ وہ خوش رہے لیکن حقیقتوں کو تسلیم کرنے کا حوصلہ بھی پیدا کرنا ہوتا ہے ، جو اس لڑکی میں نہیں تھا۔ 

انہی دنوں میری چچی نے عزت کی نسبت اپنے ڈرائیور کے بیٹے مراد سے ٹھہرا دی۔ عزت کو پہلی خبر سے ہی کچھ کم صدمہ نہ پہنچا تھا کہ یہ دوسری جان لیوا اطلاع بھی اسے مل گئی۔ وہ تڑپ کر رہ گئی۔ ہاتھ جوڑ کر بولی۔ آپی مجھ کو اپنی غلامی میں رہنے دو۔ ، یونہی ساری عمر آپ کی خدمت کروں گی لیکن چچا جان سے کہو کہ میری شادی کسی سے نہ کریں۔ مراد سے سگائی کر کے مجھ کو اس طرح ویران اور برباد مت کریں۔ وہ اس طرح بلکنے لگی کہ میرا بھی دل بھر آیا۔ ایک بار تو جی چاہا کہ خیر قاسم کو پکڑ کر عزت کے سامنے لا بٹھاؤں اور پوچھوں کہ تم نے اگر اس مجبور سے شادی نہیں کرنی تھی، تو جھوٹی محبت کا ڈھونگ کیوں رچایا؟ اس کے گلاب جیسے مہکتے حسن  کو  بر باد کیا۔ اب یہ نہ ادھر کی رہی ہے اور نہ ادھر کی، لیکن ایسا کرنا اس حویلی میں رہ کر میرے بھی بس میں نہیں تھا، کیونکہ میں بھی تو اس حویلی کے قانون کی گرفت میں جکڑی ہوئی، یہاں کے رواجوں کی اسیر تھی۔ میں بے بس ہاتھ ملتی رہ جاتی تھی۔ منگنی کے بعد عزت پر بندش لگ گئی۔ اب وہ زیادہ ہماری حویلی کی طرف نہیں آسکتی تھی۔ اس کی ماں نہیں چاہتی تھی کہ بات کھلے اور اس کے ہونے والے داماد کے کانوں میں بھنک پڑ جائے۔ ایک دن میں دائی بختو کے کوارٹر میں گئی۔ وہاں عزت بی بی کونے میں بیٹھی تھی میں نے کہا۔ عز تو ! کیا حال ہے ؟ عشق کا بھوت اترا کہ نہیں ؟ بولی۔ خدا کی قسم آپی آپ پر جان قربان کر سکتی ہوں۔ زہر لا دیجئے، خاموشی سے کھالوں گی مگر خیر قاسم کو نہیں بھلا سکتی۔ مجھے تو خوف صرف یہ ہے کہ چچا، مراد سے میری شادی نہ کریں۔ تو پھر کس سے کریں؟ خیر قاسم سے تو ہو نہیں سکتی۔ کسی سے بھی نہ کریں آپی ! میں عمر بھر ایسے ہی رہ لوں گی، کیونکہ میری شادی تو خیر قاسم سے ہو چکی  ہے۔ یہ کہتے ہوئے اس کی آنکھوں سے آنسو گرنے لگے۔

مجھے خیر قاسم سے بات کرنے کا موقع ملا تو میں نے کہا۔ خیر قاسم ! یہ تم نے اچھا نہیں کیا۔ ایک معصوم لڑکی کو بر باد کر کے تم کو کیا ملا ؟ ایک مجبور لڑکی ، جو تمہارا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتی تھی ذرا سوچو تو تم نے اس کا کتنا کچھ بگاڑ دیا ہے۔ اب وہ کسی اور کا تصور کرنے سے بھی مرنے لگتی ہے۔ اس کو میری یہ سرزنش سخت ناگوار گزری۔ اچھا تو اس نے اپنی داستان تمہارے گوش گزار کر دی ہے ؟ میں اس کو ضرور مزہ چکھاؤں گا۔ وہ مذاق نہیں کرتا تھا، جو کہتا تھا کر گزرتا تھا۔ اس نے ایک نوکرانی کی چھوٹی بچی کو اس کے پاس بھیجا اور کہا کہ خیر قاسم نے یہ بھیجا ہے اور کہا ہے کہ یہ محبت کا تحفہ ہے ، اسے کھالو۔ اس بے وقوف لڑکی نے اس پڑیا کو کھول کر اس میں جو بھی سفوف تھا، پھانک لیا۔ دیکھتے دیکھتے اس کی حالت خراب ہو گئی۔ دائی بختو دوڑی دوڑی آئی اور کہنے لگی۔ چندا جلدی چلو ، عزت ختم ہوئی جاتی ہے۔ میں گئی تو وہ بے ہوش ہونے کو تھی۔ میں نے پکارا۔ عز تو ، .. میری بات سنو ، آنکھیں کھولو ، جواب دو۔ تمہیں کیا ہوا ہے ؟ اس نے آنکھیں کھولیں اور بولی۔ ایک دفعہ خیر قاسم کو بلا دو۔ میں آخری بار اس کو دیکھنا چاہتی ہوں۔ اس کے مہمان آئے ہوئے ہیں، وہ ابھی نہیں آسکتا، وہ مردان خانے میں ہے۔ یہ میں نے اس لئے کہا تھا کہ میں جانتی تھی، وہ کبھی نہیں آئے گا۔ جس بیمار کو اس نے دوا بھجوائی تھی، اس دوا کا رقص آخر دیکھنے کی اس کو بالکل تمنا نہیں تھی۔ میں نے کئی بار اس کے منہ پر پانی کے چھینٹے مارے مگر وہ ایسی بے ہوش ہوئی کہ پھر ہوش میں نہ آ سکی۔ اس کی ماں روتی بلکتی رہی۔ اس کے رشتہ دار ماتم کرتے ہوئے آگئے اور وہ قبر کے اندھیروں میں جا سوئی۔ اس کو اپنے محبوب کی جدائی کا اتنا غم تھا کہ اس نے موت کو گلے لگا لیا۔ وہ ماں جو ساری عمر اس سے پیار سے نہ بولی تھی ، آج اس کے مرنے پر ماتم کر کر کے مری جارہی تھی۔

عزت کو مرے دوسرا دن ہوا تو وہ بھی حویلی میں ایک قصہ پارینہ ہو گئی۔ میں نے اس کی موت کے بعد ایک روز خیر قاسم سے شکوہ کیا کہ سچ بتاؤ ! کیا تم نے اسے ایسی دوا بھیجوائی تھی، جو زہر بن کر اس کے جسم میں اتر گئی ؟ ہاں، کیونکہ اس نے میرا راز تم پر افشا کیا تھا جبکہ اس نے وعدہ کیا تھا کہ وہ کبھی کوئی بات اس حویلی کے کسی مکین کو نہیں بتائے گی۔ یہ اس کی حکم عدولی کی سزا تھی۔ اف خیر قاسم ! تم اتنے سنگدل ہو ؟ میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔ صرف اپنی انا کی تسکین کی خاطر تم نے ایک جان ختم کر دی۔ اگر وہ زندہ رہ جاتی تو وہ تمہارا کیا بگاڑ لیتی۔ اس دن سے مجھے اپنے کزن سے نفرت ہو گئی۔ میرا جی چاہا کہ دولت کے ڈھیر کو آگ لگ ادوں اور ان نفرت بھرے انسانوں کے راز ساری دنیا پر فاش کر دوں جو کسی انسان کو انسان نہیں سمجھتے اور جن کے وجود کے اندر ضمیر نام کی کوئی عدالت نہیں ہوتی۔ اللہ تعالی بے نیاز ہے یہ وہی جانتا ہے کہ اس نے دنیا کس لئے بنائی ہے ، لیکن آج بھی بخت بی بی روتی ہے کہ اس کی بد نصیب بیٹی غیروں کی اولاد کی خاطر ماں کے پیار سے محروم رہی تھی۔ اس واقعہ کو مدت گزر گئی۔ آج ہم بوڑھے ہو گئے ہیں اور میں سوچتی ہوں کہ شاید کبھی خیر قاسم کو ندامت ہوتی ہو گی۔ عزت کے مر جانے کا ملال مجھے آج بھی ہے۔ میں عورت ہوں، اس لئے عزت کو نہیں بھلا سکی۔ ہم جو طبقاتی فرق میں بٹے ہوئے جی رہے ہیں، ہمارے یہاں ایسی بہت سی عجیب و غریب داستانیں جنم لیتی ہیں جو حیران کن واقعات پر مبنی ہیں۔ اگر یہ منظر عام پر آجائیں تو پڑھنے والوں کو یقین نہیں آتا۔ اونچی انچی شاندار حویلیوں میں کیا کچھ ہوتا ہے اور کیا کچھ نہ ہوتا رہا ہو گا۔ وہ رہائش کرے جو باہر سے خوبصورت اور شاندار دکھائی دیتے ہیں، ان کے اندر کیسے کیسے راز اور المیے چھپے ہوئے ہیں۔ اس قسم کی کہانیوں کو آج بھی ہمارے معاشرے سے جدا نہیں کیا جاسکتا۔ اگر یہ طبقاتی فرق ختم ہو جائے تو بہت سے اونچے گھرانوں کی آن بان اور شان و شوکت بھی ختم ہو جائے پھر ان کے پاس خود کو بڑا دکھانے کے لئے کیا بچے گا۔ وہ جو آسمان  لگتے ہیں، مٹھی بھر زمین ہو جائیں گے۔


Post a Comment

0 Comments